Header Ads

شکیب جلالی نئے اسلوب کا موجد شاعر


شکیب جلالی ان اہم شاعروں میں ہیں جو نئے لہجے اور نئے اسلوب کی ایجاد میں کامیاب ہوئے۔ ترقی پسندی سے جدیدیت کی طرف ہجرت کرتے ہوئے بالکل ایک نئی زمین پر آپہنچے۔ ان کی غزل کو غزل کی تجدید حیات کی معتبر شہادتوں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ ان کا یہ شعر تو بے حد مشہور ہوا۔
آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گرے
یہ لفظیات اس دور کے لئے جب یہ شعر عام ہوئے، نئی اور نویلی تھیں اور ادب کے اہل قلم کوچیں بہ جبیں کرنے کیلئے کافی تھیں۔ شکیب کا مجموعہ ’’روشنی اے روشنی‘‘ میرے نزدیک اس لئے اہم ہے کہ اس میں ندرت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا ہے جو میرے آپ میں نہیں رہنے دیتا اور جو میری روح میں تخلیل ہوگیا ہے۔ کچھ کرب کی لہریں ہیں اور کچھ ناتمامیاں جو شعروں کے حوالے سے دامن گیر ہونے لگتی ہیں:
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایہ دیوار پہ دیوار گرے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

صاف واضح ہے کہ شکیب کسی خاص طبقے کے نمائندہ نہیں بلکہ ہم جیسے ہی تھے۔ان کی الجھنیں،آرزوئیں اور خواہشات،ان کے رنج و محن اور وہ تمام اجزائے ترکیبی جن سے ایک پیکر کی شناخت ہوتی ہے اور تشکیل ہوتی ہے،وہ تمام نقاط شکیب کے ہوں یا آج کے کسی فنکار کے یاان کا ارتکاز مختلف سطحوں پر ہو لیکن بحالت اجمالی وہ یکساں ہیں اسی لئے شکیب کے کلام میں جدا گانہ نوع کی بے ساختگی ہے وہ ان کی منتخبہ تشبیہات و علامات کی جانب قاری کو متوجہ کرتی ہیں۔
غم الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا
آگ جب دل میں سلگتی تھی،دھواں کیوں نہ ہوا
یہ آگ تو ہر شائق کے سینے میں جلتی ہے، لیکن شکیب نے دھوئیں کی خواہش بڑے انوکھے انداز میں کی تو کرب کے اظہار کیلئے الوان کی تلاش میں ہے،جو نا آفریدہ ہیں۔ انسان جو کہ ایک مسافر بھی ہے،اس کی مسافرت قید مکان کے علاوہ کبھی زبان کے کوچے میں ہے تو کبھی درون کے طویل غار میں،تو کبھی فرار کی ٹوٹتی ہوئی ویران منزل میں۔ زمان کے کوچے میں وہ ہمدموں کے درمیان ایک تنہا رواں دواں راہی ہے جو مقام اور منزل دونوں سے بیگانہ ہے۔ شکیب کا شہر،ناصر کاظمی کی زبان میں ’’شہر ستمگر‘‘ ہے جہاں کوئی ٹھہر تا ہی نہیں، ہر ایک بے سمت آگے جارہا ہے،منزل کی شناخت کسے ہے؟ کس نے منزل پائی ہے؟
بوجھ لمحوں کا ہر اک سر پہ اٹھائے گذرا
کوئی اس شہر میں سستانے کو ٹھہراہی نہیں
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اورسائے بہت
ہم سفر چھوٹ گئے،راہ نما روٹھ گئے
یوں ہی آسان ہوئی منزل دشوار یہاں
ہائے یہ تمنائے دشت نوردی اور یہ بچھے ہوئے رستے، بے سمت،بے انتہا،ذات کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو اتفاقاً منکشف ہوتے ہیں تو خود انسان اچنبھے میں پڑجاتا ہے۔یہ کیا ہوا؟ایساکیوں ہوا؟اور اس طرح کیوں کر اضطراری اظہار برافگندہ نقاب ہوا؟یہ الماسی منشور میں جھانکنے کا عمل ہے! اگر روشنی خارج سے داخل میں درآئے تو مختلف در پردہ رنگ باصرہ پر واضح ہوتے ہیں۔ اگر روشنی منہ موڑلے تو تلاش و جستجو کے باوجود وہی بے رنگی اور بے حسی درپے آزاد ہوجاتی ہے۔ خالص سخن کی ابتدائی محرک و ہ خلش ہوتی ہے جو منتظر رہتی ہے کہ کوئی لہو چراغ روشن ہو۔ یہ لہو چراغ جو ذات کی گنجلک بوقلمونی کے مختلف خطوط متقاطعہ پر نصب ہیں اور جب لہو چراغ کی لویں آہستہ آہستہ تیز ہوتی ہیں تو اایک ایسا رنگ کئی رنگوں کا اختصار بن کر جھلکتا ہے۔ اور شناخت کا امکان پیدا ہوتا ہے اور تخلیقی خلش اس امکان کو لب و لہجہ دیتی ہے اور
اجزا ہوا مکان ہے یہ دِل،جہاں پہ ہر شب
پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام ودر سے
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں
لگتا ہے کہ شکیب ایک سنگلاخ اور بہت ہی پیچیدہ وادی کرب سے گذر کرو ارد شہر اظہار ہوئے، ان کے پاس فرد کے المیوں اور اسکے ساتھ سماجی المیوں کا ایک مخلوط پس منظر ہے۔ اسی لئے کبھی کبھی فرد کے کرب کا اظہار سماج کی اجتماعی حسرتوں کا آئینہ لگتا ہے۔ پھر یہ صورتحال کچھ اور شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہے۔ اس طرح فرد کا المیہ فقط احساس،سامعہ،باصرہ اور ایسے ہی محسوسات کی انفرادی شہادتوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ لیکن ارتکاز،سر اسراسر فرد کے محسوسات کی عکاسی کی سمت ہوتا ہے۔ شکیب نے ہر نقطہ محسوس کو تکبیر و تلوین سے ایک نئی شعری کائنات کی تشکیل کا عنصر بنادیا ہے۔ اس کیلئے ان کے منتخبہ پیکر قابل توجہ ہیں،مثلاً فصیل جسم،اپنے دروبام،آتش دان،نظر کی بلندی،دھوپ نگر،پردوں پر منقش آواز،اپنا دشت وغیرہ۔ ان پیکروں کا اصل لطف اشعار کی نشست میں روشن ملتا ہے۔ تجزیاتی فہرست تو صرف ایک اشاریہ ہے،لیکن فی الاصل اس طرح کی پیکر سازی ہی کافی نہیں۔ شکیب کی شاعری کا دوسرا اہم عنصر خارج کی علامتوں کی داخلی فکر کے ساتھ شکست و ریخت ہے۔ ان کے ہاں بصری علامتیں نئے طرز توضیح سے نئے روپ میں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ شکیب خالص شاعر ہیں اس لئے احساسات و تجربات کے تند،تلخ و شیریں کیلئے بحث و تمحیص کو اپنی غزلوں میں جگہ نہیں دیتے۔ وہ سہل اور بلا واسطہ اظہار کو پسند کرتے ہیں لیکن فنکاری کے ساتھ۔ ان کی فنکاری اختصار بیان اور اشارے کی تخفیف میں ہے۔ اشارہ گو پیش پیش نہ رکھ کر، ایک خاص موقع کیلئے مخصوص رکھتے ہیں۔ ایسا مرحلہ کے جب اعادہ و تکرار کی خواہش جاگ اٹھتی ہے،قاری انبساط بیان سے بیدار ہوکر کہتا ہے کہ ہاں ایک بار اور دیکھیں ہم کہاں سے ہوکر آئے ہیں؟
شکیب کے شعری مجموعے میں منظومات بھی ہیں جنہیں اس ذوق و شوق سے نہیں پڑھتا جس چاو سے انکی غزل پڑتھا ہوں۔ شکیب کی نظموں میں درد اور انکشاف ذات کیلئے نیچرل شاعری کاپس منظر ملتا ہے،وہی منظر نگاری، وقت و ساعت کا ذکر موسم کی طرف اشارہ اور وہ تمام التزام بھی جو Dramatic Stageمیں کیفیت دل کا بیان لگتا ہے۔ اس لحاظ سے شکیب کی نظموں میں ترسیلی گرفت نہیں جو ان کی غزلوں میں ہے۔ نظموں میں پلاننگ اور آورد کا دخل ملتا ہے۔ میں اپنی اس تحریر کے خاتمے پر ایک بار پھر کہوں گا کہ شکیب جلالی غضب کے ذہین اورخلاق شاعر تھے، انکے کلام سے ایک عجیب ساداخلی انبساط حاصل ہوتا ہے گویا لہو میں روشنیاں شامل ہوگئی ہوں:
میں ساحلوں پہ اتر کر شکیب کیا لیتا ؟
ازل سے نام مراپانیوں پہ لکھا تھا

کوئی تبصرے نہیں