Header Ads

کالعدم طالبان تنظیم کے سربراہ ملا فضل اللہ کے خفیہ ٹھکانے پر پہنچ کر دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے والے پاک فوج کے کمانڈو:ایسا واقعہ کہ جان کر آپ کا ایمان تازہ ہو جائے گا



کالعدم طالبان تنظیم کے سربراہ ملا فضل اللہ کے خفیہ ٹھکانے پر پہنچ کر دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے والے پاک فوج کے کمانڈو:ایسا واقعہ کہ جان کر آپ کا ایمان تازہ ہو جائے گا


کالعدم طالبان تنظیم کے سربراہ ملا فضل اللہ کے خفیہ ٹھکانے پر پہنچ کر دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے والے پاک فوج کے کمانڈو کیپٹن جنید ایاز خان شہید کا جب دہشت گردوں نے سرتن سے جدا کیاتو کٹے ہوئے سر نے کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کردیا

تحریر :نظام الدولہ
”دشمنوں کی گولیاں ختم ہوجائیں گی ،اس ملک کے جاں نثاروں کی چھاتیاں ختم نہیں ہونگی “ پاکستان فوج کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کا یہ بیان کاغذی بیان نہیں،لہو سے لکھی داستان عزم و استقلال کی تاریخ کے ایک ایک ورک پر لکھی داستان شجاعت کی حقیقت بیان کرتا ہے۔پاکستانی قوم اور اسلام کی روح کو بچانے کے لئے ہماری فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جس جنگ کا آغاز کیا تھا اسکی صداقت ہمارے ان عظیم شہدا کی بہادری کی داستانو ں سے ملتی ہے جنہوں نے سرکٹوا کر پرچم ہلالی کا سربلند کئے رکھا ،اپنی ماو¿ں بہنوں بیٹیوں کے سر کی چادروں کا تقدس قائم رکھا اورملک بھر میں رٹ آف لا قائم کردی ۔ میں جب بھی کسی شہید کا ذکر سنتا ہوں ،خود شہید ہوجاتا ہوں۔میری چشم تصوّرکھل جاتی ہے۔ہاں آج میں اُس جواں رعنا شہید کپتان کو چشم تصوّ ر سے دیکھ رہا ہوں ۔اسکی چمکتی سبز آنکھوں اور لبوں پر کھیلتی یاقوتی مسکراہٹ میں کئی جہانوں کی تابناکی اور آسودگی ہے۔اس کا سر اسکے اُس دھڑ سے جڑا ہوا ہے ،وہ سر جسے ہزیمت اٹھانے والے ظالمان نے قصابوں سے زیادہ سفاکی سے تن سے جدا کرکے فٹ بال کھیلا تھا،وہ مسکرا رہا ہےاور ان وادیوں ،کہساروں اور لہلاتے کھیتوں کو دیکھ رہا ہےجو خون کی فصلیں اگا رہے تھے ،جہاں ابر رحمت کی بجائے خوف کی طغیانی تھی مگر جب اس سرزمین پر اس اللہ کے سپاہی ،حیدر کرار کی تلوار کیپٹن جنید ایاز خان کے مقدس لہو کا قطرہ گرا تواس میںامن کی فصل لہرانے لگی۔دنیا کی عظیم سپاہ پاک فوج کے کمانڈوز کے دستے کے شیر دل کپتان جنید ایاز خان کو جب دھرتی کی مانگ میں سندور بھرنے کے لئے یہ ٹاسک سونپا گیا تھا کہ وہ سوات میں امن کے دشمنوں کو ان کی کمین گاہوں سے نکال باہر لائے تو وہ سر ہتھیلی پر لے کر سوات کے علاقہ خوازخیلا جا پہنچے ۔یہ کالعدم تنظیم طالبان کے سربراہ فضل للہ کا علاقہ تھا۔فوج اس تک رسائی حاصل کرنا چاہتی تھی جس کا ذمہ کیپٹن جنید ایاز خان کو سونپا گیا تھا۔آپریشن کے دوران کلین شیو کیپٹن جنید ایاز خان نے داڑھی رکھ لی تھی اور کوئی گمان نہیں کرسکتا تھا کہ وہ سوات کا غیر باشندہ ہے۔وہ اپنے تین کمانڈو زساتھیوں کیپٹن نجم ریاض،نائیک شاہد رسول اور لانس نائیک شکیل کے ساتھ ریکی کرتا ہوا فضل للہ کے خفیہ ٹھکانے تک پہنچ گیا تھا جب طالبان کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوگئی۔اس جھڑپ میں پاک فوج کے شیروں نے کئی اسلام دشمن طالبان کو جہنم واصل کیا، تاہم طالبان کی کثیر تعداد نے انہیں گھیرکر پکڑ لیا اور اپنے عقوبت خانے میں لے جا کر ان پر تشدد شروع کردیا ۔کیپٹن جنید ایاز خان سے طالبان نے حساس معلومات حاصل کرنے کی پوری کوشش کی اور پھر فوج تک پیغام پہنچایا کہ انہیں اپنے کمانڈوز چاہیں تو بدلے میں انکے وہ ہائی پروفائل طالبان قیدی واپس کئے جائیں جن کو گرفتار کرکے سوات میں امن کی بنیادیں رکھنے میں فوج کوکامیابی ملی تھی۔فوج اور فضل للہ گروپ کے درمیان پچیس دنوں تک مذاکرات ہوتے رہے ۔اس دوران طالبان نے کیپٹن جنید ایاز خان کے والد پروفیسر ایاز خان سے بھی انکے بیٹے کی رہائی کا سودا کیا اور کہا” پروفیسر تمہارا ایک ہی بیٹا ہے،حکومت سے کہو اسکا تاوان ادا کردے اور تم اپنا بیٹا لے جاو¿“ پروفیسر ایاز خان کے لئے کافر طالبان کے وعدوں کی حقیقت کوئی چھپی ہوئی بات نہیں تھے ۔انہوں نے جی کڑا کیااورطالبان کو اسلام اور اخلاقیات کا سبق دیتے رہے،استاد و معلم ، اورکزئی پٹھان جو تھے جو موت پر سودا نہیں کرسکتے تھے ۔اس جانگسل مرحلہ میں انکی قومی و ملّی حمیت نے ان کاحوصلہپسپا نہیں ہونے دیا ۔ طالبان انکی باتوں سے لاجواب ہوجاتے رہے ۔اس دوران حکومت نے ابھی تاوان ادا نہیں کیا تھا کہ اچانک خبر آگئی کہ کیپٹن جنید ایاز خان نے جب دیکھا کہ طالبان ان کی آڑ لیکر پاک فوج کوبے بس کرکے آپریشن رکوانا چاہتے ہیں تو انکی تربیت نے کام دکھادیا ۔چاروں ساتھیوں نے دست قضا پر بیعت کی ،وہ نہتے تھے اسکے باوجود کمرے میں موجود سات مسلح طالبان پر حملہ کرکے انہیں جہنم واصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔لیکن اس دوران کمرے سے باہر کھڑے دو طالبان نے کھڑکی سے ان پر فائر کھول کر انہیں شہید کردیا۔طالبان نے جب اپنے ساتھیوں کو مردہ حالت میں دیکھا تو انہوں نے بربریت کی انتہا کردی،خود کو مسلمان کہلوانے والے طالبان نے کیپٹن جنید ایاز خان اور انکے ساتھیوں کے سروں کوان کے تن سے جدا کردیا اور سروںکو فٹ بال بنا کر اپنی حیوانیت اور درندگی کا پورا ثبوت فراہم کردیا ،اسکے بعد وہ طالبان نہیں ظالمان کہلوائے جانے کے حق دار تھے۔بتایاجاتا ہے کہ جب دہشت گردوں نے کیپٹن جنید ایاز خان کانزع کے عالم میں سرکاٹ دیا تو انکی آنکھیں حسب معمول مسکرارہی تھیں اور زبان سے کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا ۔دہشت گرد یہ منظر دیکھ ایک بار تو دہل گئے تھے لیکن حیوانیت اور شیطانیت کے پُتلوں نے ان کے سر کی بے حرمتی کرکے تماشا کیا ۔بے شک پاک فوج مومنوں کی سپاہ ہے جن کی رگوں کو کلمہ طیبہ کا نور جاوداں گرم رکھتا ہے۔کیپٹن جنید ایاز خان کی والدہ اور والد صدمے اور گہری سوگواری میں اپنی فوج کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ سانحہ واقعہ کربلا کی یاد دلاتا تھا ۔ پوری فوج اپنے شہید کمانڈوز کی لاشوں کی بے حرمتی پر تڑپ اٹھی اور سوات کو مکمل طور پر طالبان سے آزاد کرانے میں ہر ایک افسر جان ہتھیلی پر لیکر اس محاذ میں جانے پر بے چین ہوگیا ۔کیپٹن جنید ایاز خان 9 مئی 1983 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے اور دس مئی 2009 کے روز شہید کئے گئے۔ انہوں نے سیکنڈری تعلیم انقرہ ترکی میں مکمل کی جہاں انکے والد پروفیسر ایاز خان تعینات تھے۔ کیپٹن جنید ایاز خان نے پاکستان ملٹری اکیڈمی 2002 میں جوائن کی اورسپیشل فورسز کی ٹریننگ کے بعد 6 کمانڈو ز سپیشل فورس رجمنٹ جوائن کرلی.حکومت پاکستان نے انکی وطن کے لئے قربانی پر بعد از شہادت انہیں تمغہ بسالت عطا کیا تھا ۔ کیپٹن جنید ایاز خان کی چند ماہ بعد شادی ہونےو الی تھی۔لیکن اس نے تو فرضسے بیاہ کرلیا تھا ۔اس نے اپنے والدین کو آخری خط میں لکھا تھا ” امی جان ابو جان ،میں نے جس مشن کے ساتھ فوج جوائن کی تھی ، میں اسکی تکمیل میں مصروف ہوں ،بس یہ کہوں گا اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے تو میری شہادت کی خبر سن کر آنسو نہ بہائےے گا“ اے میری چشم تصوّرذرا کیپٹن جنید ایاز خان شہید سے یہ کہنا ” میرے شہید تم کتنے بختوں والے ہو،تمہاری شہادت پر پوری قوم کی مائیں ،بہنیں،بیٹیاں غمزدہ ہیں ،تم نے انہیں سفاک دشمن سے بچانے کے لئے اپنا سر تن سے جدا کرالیا ، وہ تمہاری اس قربانی پر اپنے آنسو کیسے روک سکتی ہیں ،کبھی ماو¿ں اور بہنوں بیٹیوں کے آنسو اپنے پیاروں کے چلے جانے کے بعد رک سکتے ہیں ،یہ آنسو تشکر کے ہیں میرے شہید ،غم کے نہیں…. کہ اللہ نے انہیں تم جیسے شہیدوں کی امان میں دے رکھا ہے جو اپنی قومی ملّی غیرت پر جانیں قربان کرنے میں تامل نہیں کرتے۔وہ تشکر سے آنسو بہاتی رہیں گے“

کوئی تبصرے نہیں