Header Ads

ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں



ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں
بنا لیا ہے اداسی نے اک مکاں مجھ میں

ملا ہے اذن سخن کی مسافتوں کا پھر
کھلے ہوئے ہیں تخیل کے بادباں مجھ میں

سحابی شام سر چشم پھیلتے جگنو
کسی خیال نے بو دی یہ کہکشاں مجھ میں

مہاجرت یہ شجر در شجر ہواؤں کی
بسائے جاتی ہے خانہ بدوشیاں مجھ میں

عجیب ضد پہ بضد ہے یہ مشت خاک بدن
اگر ہے میری رہے پھر یہ میری جاں مجھ میں

مرا وجود بنا ہے یہ کیسی مٹی سے
سمائے جاتی ہیں کتنی ہی ہستیاں مجھ میں

شبانہ یوسف

کوئی تبصرے نہیں