Header Ads

سہیل وڑائچ


یہ ہے تو چھوٹا منہ‘ بڑی بات کے مترادف۔ چیونٹی کا پہاڑ سے مکالمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ کہاں مادرِ وطن کے لئے خون بہانے والے شیر دل جوان اور کہاں خون دیکھ کر دہل جانے والے کمزور لوگ۔ کہاں دنیا بھر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سازشوں کا مقابلہ کرنے والے عقل مند اور کہاں ہر بار ڈر جانے والے بے وقوف۔ مگر معاملہ ایسا آ پڑا ہے کہ بات کرنا ضروری ہو گیا ہے اور شاید قومی مجبوری بن گیا ہے۔ 
میرا روئے سخن اس طرف ہے جس نے پاکستان کی حفاظت اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ وہ جو پاکستان کے مخالفوں کے لئے شمشیرِ برہنہ ہے‘ وہ جو ملک و ملت کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہوتا ہے اور وہ جو اس مقدس فریضہ کی خاطر رتبۂ شہادت پر سرفراز ہو جاتا ہے‘ وہ جو آئین کے تحفظ کی قسم کھاتا ہے‘ وہ جو جمہوریت اور نظام کے تسلسل پر یقین رکھتا ہے‘ اور وہ جو ہر قدرتی آفت اور حادثوں میں فوراً آ کر سب کی مدد کرتا ہے‘ اور وہ جو مردم شماری اور دوسرے اہم قومی امور میں اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے اور وہ بھی جو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بناتا ہے اور وہ جو ملک کا بہترین قومی ادارہ ہے‘ جس نے قومی زوال کے دور میں بھی اپنی ساکھ اور انتظام کو بہتر سے بہتر بنایا ہے۔ وہ جو ملک و قوم میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور بُری ہوتی ہوئی گورننس پر بہت رنجیدہ ہوتا ہے اور وہ جو مڈل کلاس کی خواہشوں اور آدرشوں کو مدنظر رکھتا ہے اور وہ جو اتنا طاقتور ہے کہ ملک میں اسی کی مرضی چلتی ہے‘ باقیوں کو اس کی طاقت اور شاندار نظام کی بدولت بالآخر اس کے سامنے جھکنا ہی پڑتا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تضادستان میں ہر سیاسی تبدیلی کے پیچھے امریکی سی آئی اے ہوتی ہے مگر اب یہ تاثر عام ہے کہ اگر ایک اینٹ بھی ہلتی ہے تو وہ اسی جانباز کے اشارے سے ہلتی ہے۔ 

مجھے علم ہے کہ کچھ بدخواہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ بھٹو کی مقبولیت اس کا بڑا جرم بن گئی اور پھر جو بھی وزیر اعظم طاقت پکڑنے لگا اس کا ”کریا کرم‘‘ کر دیا گیا۔ کبھی آٹھویں ترمیم کے صدارتی اختیارات سے نظام ختم ہوا تو کبھی مارشل لائوں سے۔ یوسف رضا گیلانی عدالتی نااہلی کا شکار بنے اور کچھ گمراہ یہ کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی پہلے قابل قبول تھا مگر جب اس نے قومی اسمبلی میں اسامہ بن لادن والی تقریر کی تو پھر اسے اس کا تاوان اقتدار سے چُھٹی کی صورت میں ادا کرنا پڑا۔ یہی بدبخت عناصر یہ اُڑا رہے ہیں کہ نواز شریف نے ٹویٹ تو واپس کروا دیا مگر آخر اس کا جرمانہ تو بھرنا ہو گا۔ وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے شاید اقتدار سے رخصتی بھی اس کی کم سزا ہو گی؟ 

مجھے علم ہے کہ یہ سب جھوٹ‘ بہتان اور الزام تراشی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ تمام غلطیاں سیاستدانوں سے ہوئیں اسی لئے وہ اپنے انجام کو پہنچے۔ مگر میرا ہیرو تو اختلافِ رائے کو سنتا ہے۔ اپنے پورے ادارے میں اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس میں یہ جرأت رِندانہ بھی ہے کہ وہ اپنا ما فی الضمیر کُھل کر پیش کر سکتا ہے‘ وہ ٹویٹ کر کے کسی حکومتی فیصلے پر اظہار ناراضی کر سکتا ہے اسے مسترد کر سکتا ہے اور اس میں اس قدر اخلاقی بہادری بھی ہے کہ وہ ٹویٹ واپس لے سکتا ہے‘ وگرنہ تو اکثر انا پرست ٹوٹ جاتے ہیں لیکن لچک دکھانے اور آگے پیچھے ہونے پر تیار نہیں ہوتے۔ میرا تاثر ہے کہ میرے رشکِ قمر‘ میرے ہیرو‘ میرے آئیڈیل‘ ماضی کی اس قیادت سے مختلف ہیں جو سیلفیوں‘ فوٹوز اور ٹویٹس کے ذریعے رائی کو پہاڑ بناتے تھے۔ اب قیادت زیادہ حقیقت پسند‘ جمہوریت پسند اور عملیت پسند ہے۔ مارشل ٹیورین کا مشہور مقولہ ہے کہ ”خدا بھی ہمیشہ بڑی اور طاقتور فوج کا ساتھ دیتا ہے‘‘ پاکستان کے حالیہ قومی تناظر میں صاف نظر آ رہا ہے کہ “The Party is Over” ایسے میں چند حکومتی عناصر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ماضی کی طرح ان کے خلاف بھی ویسی ہی سازش ہو رہی ہے‘ جس میں میرا ممدوح بھی شامل ہے۔ مثال دی جا رہی ہے کہ جوڈیشل اکیڈمی کے در و بام ملک کو چلانے والوں کے سپرد ہیں۔ یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی کے کچھ نام بھی ملک کے منظم اور طاقتور ترین ادارے سے ہی آئے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سب جھوٹ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ مشکل میں پھنسے اور شکنجے میں آئے لوگ ایسی ہی باتیں کریں گے۔ مگر فتنہ کار ایسی باتوں کو ہوا دیتے ہیں۔ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ غیر متنازع قومی ادارہ‘ جس سے ہر فریق محبت کرتا ہے‘ کسی بھی ایسے سیاسی تنازع میں ہرگز نہ اُلجھے جس کے اثرات ماضی کی تیس سالہ سیاست اور مستقبل کی 20 سالہ سیاست پر ہوں گے۔ سیاست کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ ایسے میں ملک کے واحد غیر متنازع قومی ادارے پر 1958ء‘ 1977ء یا 1999ء جیسے سیاسی داغ نہیں لگنے چاہئیں۔ بعض مہم جو کہہ رہے ہیںکہ پہلے احتساب پھر انتخاب ہو گا۔ میری رائے میں اس طرح کے خیالات کو حتمی طور پر رد کر دینا چاہئے اور ہمیشہ سیاست سے بالاتر رہنا چاہئے۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا‘ اب وقت کا پہیہ الٹا گھمانا ممکن نہیں ہے۔ دنیا کے کئی طاقت وروں کی بُری نگاہیں پاکستانی فوج اور اس کے ایٹمی پروگرام پر ہیں۔ بھارت‘ افغانستان اور دنیا کی ایک سپر پاور ہمارے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ آئینی راستے سے ہٹنے کی آپشن ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائے۔ تحریر و تقریر کی آزادی کو یقینی بنانا چاہئے۔ اب ماضی کے وہ الزامات جو عمر چیمہ کو خبر دینے پر مولا بخش پھیرنے یا سلیم شہزاد کو مارتے مارتے جان سے مار دینے یا حامد میر کی طرح گولیوں سے چھلنی کرنے کے تھے‘ ان سے آگے نکل کر شفافیت اور فیئر پلے کا راستہ اپنانا چاہئے۔ 



مجھے قوم کے سب سے طاقتور ادارے سے یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور پاکستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر سب سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہو گا۔ امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کے حوالے سے پالیسی پر نظرثانی کر رہے ہیں اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی تھوڑے عرصے میں امریکہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ واقعات پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے نواز شریف‘ عمران خان‘ آصف زرداری‘ فوجی قیادت اور باقی سیاسی قیادت بشمول مولانا فضل الرحمن‘ سراج الحق‘ چودھری شجاعت حسین‘ چودھری پرویز الٰہی‘ شیخ رشید احمد اور محمود اچکزئی کو مل بیٹھ کر ملک کا آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے۔ خارجہ پالیسی میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں اس پر بھی مکالمہ ہونا چاہئے۔ آنے والے دنوں میں جو فیصلے ہونے والے ہیں اس سے آئندہ الیکشن کا بھی گہرا تعلق ہو گا۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ بجائے انارکی اور کنفیوژن کے پہلے سے طے ہو جائے کہ انتخابات کب اور کیسے ہوں گے۔ ظاہر ہے یہ سب بڑی بڑی باتیں ہیں اور کرنے والے کا منہ بہت چھوٹا… مگر سوچئے کیا یہ سب کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں…؟ 

بشکریہ: روز نامہ دنیا 

کوئی تبصرے نہیں