Header Ads

ہم جیسے

ہم جیسے
ہم چار دوستوں کا ایک گروپ تھا، نہیں بلکہ پانچ دوستوں کا‘ پہلے چار اس لئے کہا تھا کہ ہم چار دوست پارٹیاں اور ہلہ گلہ وغیرہ کرتے تھے لیکن پانچواں عظمت خان تھا جو کہ اکثر پارٹیوں میں شریک نہیں ہوتا تھا‘ اسے ہلہ گلہ اور خرچہ کرنا اچھا نہیں لگتا تھا شاید اسلئے کہ وہ بہت کنجوس تھا۔ ہم اس کو بہت طعنے بھی دیتے تھے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ پھر بھی بندہ دل کا اچھا تھا اسلئے ہمارے گروپ میں کسی نا کسی کھاتے میں شامل تھ وہ ایک سردیوں کی یخ بستہ رات تھی میں اور میرا دوست عظمت بائیک پر کسی کام سے صدر کےلئے روانہ ہوئے۔ بائیک میری تھی سو میں ہی چلا رہا تھا۔ابھی ہم آدھے راستے پر ہی تھے کہ ایک دم عظمت چلایا‘ ارے بائیک روکو بائیک بائیک روکو بائیک روکو‘ میں تھوڑا سا پریشان ہوا لیکن میں نے بائیک روک دی۔عظمت بائیک سے اترا اور جہاں سے ہم آرہے تھے وہاں واپس پیدل تیز تیز چلنے لگا۔ میں نے بھی بائیک ایک سائیڈ پرکھڑی کی اور اس کے پیچھے چلا گیا۔ تھوڑی دور گیا تو ایک جگہ پر ایک سفید داڑھی والے ایک بوڑھے شخص کے پاس وہ رک گیا۔ اس کے سامنے کچھ کیلے رکھے ہوئے تھے اور تھوڑے سے سیب بھی تھے‘ جسم پر ایک پرانی سے موٹی چادر تھی اور پاﺅں میں پرانے اور پھٹے ہوئے جوتے تھے۔ اس ٹھنڈی رات میں شاید وہ کسی گاہک کا انتظار کررہے تھے۔
میں نے سوچا شاید عظمت میری جیب مارے گا‘ عظمت بابا جی کے پاس بیٹھ گئے اور ان سے سارے کیلوں اور سیبوں کا ریٹ پوچھا‘ بابا جی نے ان سب کی قیمت تین سو روپے بتائی‘ عظمت نے کہا کہ بابا جی میرے ایک مجبوری ہے اور میں یہ سب چیزیں ایک ہزارمیں خریدوں گا‘ مہربانی کرکے یہ سب ایک ہزار کی دے دیں‘ میری عزت کا سوال ہے‘ بابا جی یہ سن ہر حیرت زدہ ہوئے اور پریشان بھی ہوئے اور کیلے اور سیب دینے سے انکار کردیا‘
عظمت اس کے منت سماجت کرنے لگا کہ بابا جی میری عزت کا سوال ہے میں ایک ہزار سے کم میں یہ نہیں خرید سکتا‘ کچھ منت سماجت کے بعد وہ بابا جی مان گئے‘ تو عظمت نے جھٹ سے جیب سے ایک ہزار کا نوٹ نکالا‘ بابا جی نے جیب سے ٹارچ نکال کر ایک ہزار کے نوٹ کو تسلی سے دیکھا اور سارے سیب اور کیلے ایک شاپر میں ڈال دیئے‘ عظمت نے جیسے ہی وہ کیلے اور سیب لئے تیزی سے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور بائیک کی طرف چلنے لگا‘ میں بہت حیرانگی سے یہ ساری کاروائی دیکھ رہاتھا‘ میں سمجھا کہ شاید عظمت نے اس بابا جی کو جعلی نوٹ دے دیا‘ بائیک کے قریب آکر میں نے مذاق میں کہا کہ ارے لگتا ہے بابا جی کو تم نے الو بنا لیا ہے‘ جعلی نوٹ دے کر سارا فروٹ لے لیا‘
عظمت نے ایک مسکراہٹ سے میری طرف دیکھا اور کہا‘ نہیں بھائی نوٹ ایک دم اصلی تھا‘ میں مزید حیران ہوا اور اس سے پوچھا تو پھر تین سو کا فروٹ ایک ہزار میں کیوں لیا‘ اس نے جواب دیا‘ ارے پگلے با با کی مدد کی ہے‘ دیکھو نا اس ٹھنڈی رات میں وہ بیچارہ بیٹھا کسی گاہک کا انتظار کررہا تھا اور گھر میں اس کے بچے اس کا انتظار کررہے ہوں گے‘ سو میں نے سوچا ان کی مدد کر لوں غریب بندہ لگ رہا تھا‘ تم لوگ جو پارٹیوں میں ہزاروں لٹا دیتے ہو میں اسی طرح ہزاروں جمع کرتا ہوں آخرت کے لئے‘ عظمت کے یہ جملے سن کر میں سکتے میں آگیا اور اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا کیونکہ اپنی نادانی اور عظمت کی دانائی کی وجہ سے میرے آنکھوں سے دو آنسو نکل کر میرے چہرے کو تر کر رہے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں