کوئی موسم ہو دل میں ہے، تمہاری یاد کا موسم
کوئی موسم ہو دل میں ہے، تمہاری یاد کا موسم،
کہ بدلا ہی نہیں جاناں، تمہارے بعد کا موسم،
نہیں تو آزما کر دیکھ لو، کیسے بدلتا ہے!
تمہارے مسکرانے سے دل
ناشاد کا موسم،
صدا تیشے سے جو نکلی، دل شیریں سے اٹھی تھی،
چمن خسرو کا تھا لیکن، رہا فرہاد کا موسم،
پرندوں کی زباں بدلی، کہیں سے ڈھونڈ لے تو بھی،
نئی طرز فغاں اے دل کہ ہے ایجاد کا موسم،
رتوں کا قاعدہ ہے وقت پر یہ آتی جاتی ہیں،
ہمارے شہر میں کیوں رک گیا فریاد کا موسم،
کہیں سے اس حسیں آواز کی خوشبو پکارے گی،
تو اس کے ساتھ بدلے گا دل برباد کا موسم،
قفس کے بام و در میں روشنی سی آئی جاتی ہے،
چمن میں آ گیا شاید لب آزاد کا موسم،
مرے شہر پریشاں میں تری بے چاند راتوں میں،
بہت ہی یاد کرتا ہوں تری بنیاد کا موسم،
نہ کوئی غم خزاں کا ہے، نہ خواہش ہے بہاروں کی،
ہمارے
ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم،
Post a Comment