Header Ads

تاجک قوم

وکی پیڈیا کے مطابق تاجیک یا تاجک بنیادی طور ایرانی النسل قوم ہے جو تاجکستان، افغانستان، ازبکستان، کرغیزستان ، قازقستان ، پاکستان اور چائنہ میں اباد ہے. تاجک لوگ بطور قوم فی زمانہ بیک وقت کئے زبانیں بولتےہیں ، لیکن غالب اکثریت فارسی ( جسے تاجکی بھی کہتے ہیں ) زبان کے حامل ہے. پاکستان میں تاجک قبیلےکے تمام لوگ پشتو اور افغانستان میں اکثریت فارسی اور کچھ پشتو زبانیں اختیار کرچکے ہیں.
تاجکستان میں پامیر کے پہاڑی سلسلے اور افغانستان میں کابل اور بدخشان کے علاقے تاجک اکثریتی علاقے ہیں. تاریخی طور پر تاجک قوم کی اکثریت زراعت پیشہ پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور موجودہ تاجک قوم وسطی ایشیاء کے مشرقی ایرانی تاجک نسل کی اولاد ہیں.
انسائیکلو پیڈیا اف برٹینکا کے مطابق تاجک براہ راست ایرانی النسل لوگ ہیں جو ہزاروں سال سے وسطی ایشیاء اور شمالی افغانستان میں اباد ہیں. خوارزم اور باختر کے قدیمی ریاستوں کے رہنے والے اکثرلوگ تاجک ہی تھے. ابتدائی طور پر مشرقی ایرانی لہجے کی زبان میں بات کیا کرتے تھے جو بعد میں موجودہ فارسی زبان کی طرف اگئے جو مغربی ایران اور افغانستان میں فی زمانہ بولی جاتی ہے اور اس لئے تاجک قوم کو افغانستان میں فارسی وان بھی کہا جاتا ہے اور کچھ لوگ خود کو خراسانی (تاجک) کہلوانا بھی پسند کرتے ہیں.
پاکستان میں بسنے والے تاجک قوم ( جو تاجک قبیلہ اور بعض علاقوں میں دھقان بھی کہلاتے ہیں) کی ابادی ایک اندازے کے مطابق 12 لاکھ ہے اور یہ لوگ پشاوروادی کے علاوہ خبیرپختونخواہ کے شمالی علاقوں میں رہائش پزیر ہیں.افغان جہاد کے دوران پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین میں بھی تاجک لوگ شامل تھے جو پشاور خیبرپختونخواہ اوراسلام اباد سمیت کراچی میں غریب الوطنی کے شب وروز گزار رہے ہیں.
تاجک قوم کی اکثریت کا مذہب سنی اسلام لیکن اقلیتی تاجک اسماعیلی فرقے کے مذہبی عقائد سے بھی وابستہ ہیں. ہنزہ گلگت بلتستان کے واخی قبیلے کے لوگ خود کواصلی اور تاریخی تاجک قرار دیتے ہیں اور یہ لوگ گلاجی اور پامیری بھی کہلاتے ہیں، سراغا خان کے ماننے والے پیروکار اور اسماعیلی شیعہ ہیں. افغانستان میں تاجک قوم کی ایک نمایاں تعداد شیعہ مذہب کے دیگر مسالک اور فرقوں کے بھی پیروکار ہیں.
تاریخی طور پر اسلام سے پہلے تاجک قوم ایرانی پس منظر کی وجہ سے اتش پرست اور بعد میں افغانستان میں بدھ مت کے ادوار میں اسی مذہب کے تعلیمات کے متاثر اور ماننے والے رہے.
موجودہ پاکستان میں تاجک لوگ مغل اور دیگر اسلامی سلطنتوں کے دوران تاجکستان اور افغانستان سے تاجروں، صوفیاکرام، مذہبی مبلغوں، ماہرین تعمیرات کے صورت میں اکر یہاں بسیرا اختیار کرچکے ہیں اور بعد میں نسل در نسل یہاں اباد ہوکر سماج کا نہ صرف حصہ بن گئے بلکہ اپنی اصلی زبان کے بجائے مقامی زبان اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے.
فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہونے ایک تحقیقی مضمون میں علی حسن اخوانزادہ نے دعوکی کیا ہے کہ 1190 عیسوی کے قریب شمال مشرقی افغانستان اور موجودہ شمالی پاکستان کے علاقے پر اسلامی سلطنت جیبر (Giber) کا بھی ظہورہوا تھا جہاں دو بھائیوں سلطان بہرام اور سلطان پاخیل کی بادشاہی تھی. یہ دونوں بھائی کنڑ کے پیچ درہ کے سلطان کہجمن کے بیٹے تھے جو پیچ درہ کے سلطان ہندو کا بیٹا تھا اور یہ خاندان سکندرزوالقرنین کی نسل سے ہونا کا دعوی گیر تھا. ابتداء میں سلطان بہرام نے ننگرہار افغانستان کے سپین غر کی دامن پاپین کے مقام کو اپنا دارالحکومت بنایا جبکہ اسکے بھائی سلطان پاخیل نے مشرق کی طرف علاقے قبضہ کرکے سوات کے قصبے منگلور کو اپنے طاقت کا مرکز بنایا. تاہم سلطان بہرام کی جلد وفات کے بعد اسکے بیٹے اقتدار کے خاطرلڑتے رہے اور بعد میں واقعات کی ایک طویل فہرست کی وجہ سے یہ تاجک ریاست انجام کو پہنچی.
2014 کے اعداد وشمار کے مطابق تاجک قوم افغانستان میں کل ابادی 27 سے 33 فیصد، تاجکستان میں کل ابادی 67 لاکھ 87 ہزار، ازبکستان میں ایک کروڑ کے قریب، موجودہ روس میں دو لاکھ، کرغیزستان میں 47 لاکھ اور چین میں 39 ہزار کی تعداد میں اباد ہیں.
افغانستان میں تاجک قوم کابل، مزار شریف ، ہرات، بلخ ، تخار، غزنی ، بدخشان، سمنگان، پروان، کاپیسہ، غور اور بغلان میں اباد ہے.
تاجکستان کے کل ابادی کے 80 فیصد تاجک جس میں پامیری زبان بولنے والے بھی شامل ہیں اور ملک کے کونے کونے میں اس قوم کے لوگ پائے جاتے ہیں.
ازبکستان کے بڑے اور تاریخی شہروں بخارا اور ثمرقند میں تاجک قوم کی اکثریت ہے . علم وفن کے ان شہروں میں پیدا ہونے والے اتش پرست اور اسلامی علماء کی اکثریت کا تعلق بھی تاجک قوم سے تھا جس میں قابل زکر فقہ حنفیہ کے بانی امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں.
حالیہ اوقات میں اس زمانے کے قابل زکر لوگوں میں تاجکستان کے دیگر اہم شخصیات کے علاوہ صدر امام علی رحمانوف بھی شامل ہے جسکا تاجک قوم کے لئے قابل ذکر کارنامہ روسی شناخت سے نجات دلانا ہے. سویت یونین کے زمانے میں موجودہ تاجکستان اور دیگرملحقہ ریاستوں کے باشندوں کے لئے ضروری تھا کہ اپنے نام کے ساتھ اوف کا اضافی لفظ لگائے تاکہ روسی قومی شناخت واضح ہو، لیکن یہ امام علی رحمانوف ہی تھے جس نے اکتوبر 2009 میں نہ صرف اپنے نام سے اوف کا لاحقہ ہٹایا بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے اور تاجک کا لاحقہ اختیار کرنے کی ترغیب دی اور اسی وجہ سے صرف اسی سال 4000 قوم پرست افراد نے اپنے نام کے ساتھ تاجک کو باقاعدہ طور پر رجسٹر کردیا. اس سے پہلے 1994 میں موصوف نے تاجکستان میں فارسی کا نام بھی تاجکی رکھ دیا تھا اور امام علی کا یہ طرزعمل تاجکستان میں تاجک قوم کی ثقافتی احیاء کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیا جارہا ہے.
تاجک قوم کے دیگر قابل زکر افراد میں سابق افغان صدر برہان الدین ربانی مرحوم اور احمد شاہ مسعود مرحوم، موجودہ افغان وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ بھی شامل ہیں. جو جہادی کمانڈر اور تین عشروں تک افغانستان کی قومی سیاست میں قومی راہنما کی طور پر اپنالوہا منواچکے ہیں.موجودہ وزیر خارجہ اور ثالثی جرگہ کے راہنما صلاح الدین ربانی تاجک اور موجودہ سیاسی منظرنامے میں ایک بڑا نام ہے.
پاکستان میں موجود تاجک قبیلے کے مشران سردار کہلاتے ہیں اور پاکستان کے شمالی علاقاجات میں تاجک قومی اتحاد یا تاجک قومی مومنٹ کے نام سے نوجوان نسل اس قوم کوایک سماجی اور ثقافتی پیلٹ فارم پر اکھٹاکرنے کے لئے شبانہ روز محنت کررہے ہیں. سردار جاوید اخترتاجک ایڈوکیٹ، احسان تاجک، کلیم تاجک اور دیگر اس تحریک کے فعال اور مستعد سرداران اور کارکنان ہیں.

کوئی تبصرے نہیں