Header Ads

وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک


وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک
جو سفر میں نے نہ ہونے سے کیا ہونے تک

زندگی اس سے زیادہ تو نہیں عمر تری
بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک

ایک اِک سانس مری رہن تھی دِلدار کے پاس
نقدِ جاں بھی نہ رہا قرض ادا ہونے تک

مانگنا اپنے خدا سے بھی ہے دریوزہ گری
ہاتھ شل کیوں نہ ہوئے دستِ دُعا ہونے تک

اب کوئی فیصلہ ہو بھی تو مجھے کیا لینا
میں تو کب سے ہوں سرِ دار سزا ہونے تک

داورا تیری مشیت بھی تو شامل ہو گی
ایک اچھے بھلے انساں کے برا ہونے تک

دستِ قاتل سے ہوں نادم کہ لہو کو میرے
عمر لگ جائے گی ہمرنگ حنا ہونے تک

دشت سے قلزمِ خوں تک کی مسافت ہے فراز
قیس سے غالبِ آشفتہ نوا ہونے تک

کوئی تبصرے نہیں