Header Ads

کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی۔۔۔۔۔۔۔


کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی۔۔۔۔۔۔۔

جس عمر میں میاں صاحب وزیراعظم بنے تھے اس عمر میں طیب اردگان استنبول کا مئیر بنا تھا۔ میاں صاحب 30 سال کی عمر میں صوبے کے وزیر خزانہ بنے اور دس سال بعد 40 سال کی عمر میں 80 لاکھ کے قریب ووٹ لے کر ملک کے وزیر اعظم۔ طیب اردگان 1994 میں استنبول کے مئیر منتخب ہوئے اور دس سال بعد ترکی کے وزیر اعظم۔

اردگان نے استنبول کا مئیر بن کر اپنے "خاموش انقلاب " کے سفر کا آغاز کیا۔ کسی پارٹی ورکر کو کوئی نوکری نہیں دی، اپنی ہی پارٹی کے کئی ذمہ داران کو ناراض کرلیا۔ 
اس نے استنول میں لاکھوں کلومیڑ صاف پانی کی لائنیں بچھائیں، شہر کا کچرے تلف کرنے کے لئے دنیا کا جدید ترین بازگردانی (Recycle Plant) کا پلانٹ لگایا۔ شہر کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے توانائی کی پیداوار کو قدرتی گیس پر منتقل کیا۔ پچاس سے زائد انڈر پاس بنائے، میڑو اورنج اور گرین لائن ریپڈ بس سروس ترکی میں پہلی مرتبہ متعارف کروائی۔ اس سے پہلے استنبول ٹریفک جام کے لئے دنیا بھر میں مشہور تھا۔ اس کے علاوہ استنبول کی بلدیہ میں چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی اور یہ ادارہ ایک خسارہ والے ادارے سے منافع بخش ادارہ بنا۔
صرف ایک شہر کی میئرشپ کے بعد اردگان نے پورے ملک میں اپنی دیانت، زہانت اور انتظامی ہنر مندی کی بدولت اتنا نام کمایا کہ مئیر شپ ختم ہونے کے 3 سال بعد ایک پارٹی بنائی اور اپنے پہلے الیکشن میں اسٹبلشمنٹ کی تمام تر مخالفت کے باوجود ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔

اردگان دائیں بازو کے کٹر سیاستدان ہیں لیکن انہوں نے کبھی "انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب" کا نعرہ نہیں لگایا۔ بلکہ ایک روشن اور درجہ بہ درجہ ترقی یافتہ ترکی کی بات کی۔ اپنی معشیت کو آزاد کیا، کیونکہ سیاست میں خالی پیٹ کا ایمان روٹی، ننگے بدن کا کپڑا اور بے گھر کا ایمان گھر ہوتا ہے۔ 
کرنسی سے چھ کا ہندسہ غائب کیا۔ توانائی کے بحران کو ختم کیا، سرکاری اداروں میں شفافیت کو فروغ دیا، کرپشن کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائی، تین ملین سے زیادہ لوگوں کے لئے چھوٹے رہائشی یونٹ بنوائے۔ 
محض چار سال میں اردگان ملک اور خطہ کے ایک مشہور لیڈر بن گئے۔ اب اردگان محض سیاستدان نہیں تھے بلکہ پسندیدہ عوامی لیڈر تھے۔ 
اردگان نے 2007 میں صدر بننے کا منصوبہ بنایا تواسٹبلشمنٹ آڑے آگئی، دو لاکھ افراد طیب اردگان کی مخالفت میں انقرہ کی سڑکوں پر آگئے۔ عوامی رد عمل کو بھانپ کر اردگان نے اپنے بجائے عبداللہ گل کو صدر کا امیدوار نامزد کردیا اور خود دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے۔
وہ ترقی جو 23 بلین ڈالر کا مقروض تھا 2009 میں اس کے قرضے گھٹ کر 7 بلین ڈالر ہوگئے۔ 2002 میں ترقی کے وفاقی بینک کا ریزرو 26 بلین ڈالر تھا جو کہ بڑھ کر 72 بلین ڈالر ہو گیا۔ 
گردشی قرضے ختم کردئے۔ 
یہ وہ دور تھا جب ہر طرف "اردگان دے نعرے وجن گے" کا نعرہ تھا۔ 
2010 میں اردگان نے ترک دفاعی اداروں کے 40 افسران کو سوکھا گھر بھیج دیا، ان پر اپنی حکومت کے خلاف بغاوت، سیاست میں مداخلت، اور کرپشن کا الزام تھا۔ 40 افسران جن میں ایک جنرل چار ایڈمرل، دو کرنل اور درجن بھر ائیر فورس کے افسران شامل تھے، گھر بھیجے جانے پر کہیں سے چوں کی آواز بھی نہیں آئی۔ 
اس کے بعد ترکی نے 2010 میں غزہ کا محاصرہ توڑتے ہوئے اپنا امدادی بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا غزہ بھیجا، یہ وہ مقام تھا جہاں سے اردگان ایک عالمی لیڈر بننا شروع ہوا۔ 
2016 میں جب فوج نے اردگان کو گرفتار اور ملک پر مارشل لاء لگانے کی کوشش کی تو عوام خود فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ 
یہ سب فوج کی نفرت اور ووٹ کی عزت کے لئے نہیں تھا، بلکہ اردگان نے جو اپنی عوام کو عزت دی، عالمی سطح پر ترقی کا جو نام پیدا کیا اس کا بدلہ تھا۔ 
چھوٹے بڑے دونوں میاں صاحبان بھی اپنے آپ کو اب کی بار اردگان سمجھ بیٹھے تھے۔ 
حالانکہ دونوں برادران اردگان کے گاڑی کی دھول سے اٹھنے والی گرد سے ناک میں بننے والے میل کے برابر بھی نہیں۔ 
میاں صاحب پہلی مرتبہ 80 لاکھ دوسری مرتبہ 90 لاکھ اور تیسری مرتبہ سوا کروڑ ووٹ لیکر وزیر اعظم بنے، ساڑھے نو سال وزیر اعظم رہنے کے بعد میاں صاحب کو یاد آیا کہ اس ملک میں کوئی خلائی مخلوق ہے جو سیاستدانوں کو کام نہیں کرنے دیتی، تین بار وزیراعظم رہنے کے بعد میاں صاحب کو احساس ہوا کہ ہمارے کچھ ایسے گندے بچے ہیں جو پڑوسیوں کے گھر پر بری نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے موٹر وے سے لیکر کل والی اورنج ٹرین تک بھاری قرضوں پر بنائی، پورا سی پیک فوج کی گارنٹی پر بن رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اپنے ہزاروں جوانوں اور سینکڑوں افسران کی قربانی دے کر بھی میاں صاحب کی نظر میں فوج کا کردار مشکوک ہے۔ 
قرض اتارو ملک سنوارو والے چندے کا کوئی حساب نہیں
کشمیر، فلسطین، میانمار، اور بنگہ دیش میں محبان پاکستان کے قتل عام پرمیاں صاحب خاموش رہے. 
اور توقع کرتے ہیں کہ میں اردگان ہوں اور جیل سے بیٹھ کر بھی کال دوں گا تو لاکھوں عوام میرے حق میں سڑکوں پر ہونگے۔ 
شہباز شریف بھی اردگان کوکاپی کرتے ہیں، انہوں نے جو کام تین بار وزیر اعلی اور تین بار دولہا بن کر ایک شہر میں کیا ہےاس کئی سے گنا زیادہ کام اردگان نے ایک شہر کا مئیر 1994 بن کر کیا۔

اردگان کو پڑھ کر اور ہمارے سیاستدانوں کے کرتوت دیکھ کا اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی میں کیوں عوام فوجی ٹینک کے آگے لیٹتی ہے اور پاکستان میں کیوں 111 بریگیڈ کے ٹینکوں کوپیچھے سے دھکا دیتی ہے۔

بے ربط خیالات
عبدالسمیع قایم خانی 

کوئی تبصرے نہیں