Header Ads

ایک حیران کن واقع




آج ہم آپ کو ایک ایسے گمشدہ طیارے کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے مسافروں کو دنیا نے مردہ قرار دے دیا تھا لیکن یہ مسافر تھے اور زندہ رہنے کے لئے اپنے مردہ دوستوں اور ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوئے۔ جی ہاں یہ سچا واقعہ 1972ءمیں پیش آیا تھا۔ جنوبی امریکہ کا ایک ملک یوراگوئے کے کالج کے لڑکے رگبی کامیج کھیلنے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ ہمسایہ ملک چلی جارہے تھے۔ 13 اکتوبر 1972ءکی شام کو جہاز نے ارجنٹائن کے ایک مقامی ایئرپورٹ سے پرواز شروع  کی، جہاز کی منزل چلی کا دارالحکومت

ایگو تھی اور اس میں 45 مسافر سوار تھے۔ جہاز کو ایک پہاڑی سلسلے ”اینڈیز“ کے اوپر سے گزرنا تھا یہ پہاڑی سلسلہ 23ہزار فٹ تک بلند ہے لیکن موسم کی خرابی اور پائلٹ کی غلطی کے باعث جہاز ایک چٹان سے ٹکرانے کے بعد انتہائی برفانی چوٹی پر کریش کرگیا۔ شدید برفانی طوفان کے باعث پائلٹ کو چوٹی نظر نہ آئی تھی اور یہ حادثہ پیش آیا۔ خوش قسمتی سے پہاڑوں پر 15فٹ سے زیادہ برف ہونے کے باعث جہاز کے پرخچے نہ اڑے اور جہاز پھسلتا ہوا چوٹی سے ٹکرانے کے بعد نیچے کی جانب آیا،جہازمیں بیٹھے زیادہ تر مسافر محفوظ رہے۔کنٹرول ٹاور سے جہاز کا رابطہ منقطع ہوچکا تھا اور یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جہاز کو حادثہ پیش آچکا ہے لیکن جہاز کی جائے حادثہ کا کسی کو معلوم نہ تھا۔ جہاز کی تلاش شروع کی گئی اور آٹھ دس دن تک ریسکیو ٹیمیں جہاز کی تلاش کرتی رہیں لیکن شدید برفانی طوفان کے باعث یہ سمجھ لیا گیا کہ جہاز میں بیٹھے تمام مسافر مرچکے ہیں اور بالآخر جہاز کو گمشدہ کہہ کر تمام مسافروں کو مردہ قرار دے دیا گیا۔ دوسری جانب جہاز پر سوار مسافروں کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ حادثے کے باعث 45 میں سے 16 افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ ہلاک شدہ افراد کو جہاز میں سے نکال کر باہر برف میں دفن کردیا گیا۔ 29 مسافر زندہ بچے تھے لیکن 5 کی حالت نازک تھی۔بچ جانے والے مسافروں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ خوراک کا درپیش تھا، اس کے علاوہ جہاز کے باہر 15 سے 20 فٹ گہری برف تھی سب سے بڑھ کر 15 ہزار فٹ کی بلندی پر شدید برفانی طوفان تھا۔ جہاز میں صرف 10 سے 12چاکلیٹس موجود تھیں اور کھانے والے 29 لوگ یہ 12 چاکلیٹس 8 دن تک کھائیں گئیں۔ ٹرانزسٹر کے ذریعے باقی مسافروں کو نویں دن علم ہوا کہ انہیں مردہ قرار دے دیا گیا ہے اور ریسکیو ٹیموں نے ان کی تلاش بند کردی ہے۔ بھوک کی وجہ سے ان مسافروں کا برا حال تھا اور جب یہ علم ہوا کہ اب ان کی امداد کو کوئی نہ آئے گا تو تمام مسافر شدید پریشانی کا شکار ہوگئے۔ مزید 3 دن تک مسافروں نے انتظار کیا لیکن اب بھوک کے باعث ان کا برا حال تھا۔آخر کار ان مسافروں نے فیصلہ کیا کہ جو لوگ مرچکے ہیں ان کا گوشت کھا لیا جائے۔ ان مسافروں نے ایک دوسرے سے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر ان میں سے کوئی مرجائے گا تو باقی لوگ اس کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ یہ مفلوک الحال مسافر شدید بے چارگی کے عالم میں 72 دن یعنی اڑھائی ماہ تک اس ”برفانی جہنم“ میں رہے۔ شدید برفانی طوفان، بھوک، کمزوری اور بیماریوں کے باعث 29 لوگوں میں سے صرف 16 لوگ زندہ بچے جبکہ 13لوگ حادثے کے بعد ہلاک ہوئے۔ ان 16 لوگوں میں سے 2 بہادر نوجوانوں نے 20 ہزار فٹ سے زائد اونچا پہاڑ عام جوتوں اورکپڑوں میں عبور کیا اور نزدیک ترین قصبہ جو کہ 60کلومیٹر دور تھا میں جاکر مدد حاصل کی اور یوں ان لوگوں کو 24 دسمبر 1972ءکو نئی زندگی ملی۔ یہ 16 لوگ آج بھی دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں۔ دنیا بھر میں اس واقع کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بقاءکی کہانی کہا جاتا ہے۔آج بھی جب کوہ پیما اس پہاڑ پر جاتے ہیں اور یہ دیکھ کر کہ کس طرح دو نوجوانوں نے ان پہاڑوں کو عام لباس میں عبور کیا حیران ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان کی قوت ارادی مضبوط اور اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہو تو انسان سب کچھ کرسکتا ہے۔ ہمیں بھی دعا کرنی چاہیے کہ ملائیشین طیارہ میں سوار لوگ خیریت سے ہوں۔

کوئی تبصرے نہیں